السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
سوال... کیا فرماتے ہیں علمائے اسلام کہ اللہ پاک کافر کی دعا قبول فرما تا ہے کہ نہیں مدلل جواب عنایت فرمائیں,
سائل؛ ساجد رضا ستار گنج   

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
جب بندہ غفلت کے ساتھ دعا مانگتا ہے تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی تو پھر کافر کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے
اور یاد رکھیں جسکا دل نور ایمان سے خالی ہو بھلا اس کی دعا کیونکر قبول ہو,
اسی لئے دعا کے آداب میں سے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ قبولیت کے یقین سے دعا مانگو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تم اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا مانگا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل دل سے(دعا کرنے والے کی )دعا قبول نہیں فرماتا۔
(ترمذی، کتاب الدعوات، ۶۵-باب، ۵ / ۲۹۲، الحدیث: ۳۴۹۰)
دعا قبول ہونے کی شرائط:
اس مقام پر مفسرین نے دعا قبول ہونے کی چندشرائط ذکر فرمائی ہیں  ،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے،
(1)…دعا مانگنے میں  اخلاص ہو۔
(2)… دعا مانگتے وقت دل دعاکے علاوہ کسی اور چیزکی طرف مشغول نہ ہو۔
(3) … جو دعا مانگی وہ کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہو جو شرعی طور پر ممنوع ہو۔
(4)… دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو۔
(5)…اگر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تووہ شکایت نہ کرے کہ میں  نے دعا مانگی لیکن وہ قبول نہ ہوئی۔
(خزائن العرفان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۷۳، ملخصاً)
جب ان شرطوں کو پورا کرتے ہوئے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول ہوتی ہے اور یاد رہے کہ جو دعا تمام شرائط و آداب کی جامع ہو تو اس کے قبول ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ جو مانگا وہ مل جائے بلکہ اس کی قبولیت کی اور صورتیں بھی ہو سکتی ہیں مثلاً اُ س دعاکے مطابق گناہ معاف کر دیۓ جائیں  یا آخرت میں  اس کے لئے ثواب ذخیرہ کر دیا جائے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ بندہ اپنے رب سے جو بھی دعا مانگتا ہے ا س کی دعا قبول ہوتی ہے، (اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یا تو اس کی مانگی ہوئی مراد دنیا ہی میں  اس کو جلد دیدی جاتی ہے ،یا آخرت میں  اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا دعا کے مطابق اس کے گناہوں  کا کفارہ کردیا جاتا ہے اور اس میں  شرط یہ ہے کہ وہ دعا گناہ یا رشتہ داری توڑنے کے بارے میں  نہ ہو اور (اس کی قبولیت میں) جلدی نہ مچائے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:وہ جلدی کیسے مچائے گا ؟ارشاد فرمایا: ’’اس کا یہ کہنا کہ میں  نے دعا مانگی لیکن قبول ہی نہ ہوئی (یہ کہنا ہی جلدی مچانا ہے)۔*
( ترمذی، احادیث شتّی، ۱۳۵-باب، ۵ / ۳۴۷، الحدیث: ۳۶۱۸)
دعا قبول نہ ہونے کے اَسباب:
اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنی رحمت سے بندوں  کی دعائیں  قبول فرماتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں  کہ بعض اوقات ہماری مانگی ہوئی دعائیں  قبول نہیں  ہوتیں  ،اس کے کچھ اَسباب ہوتے ہیں  جنہیں  بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ نقی علی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں؛
اے عزیز!اگر دعا قبول نہ ہو تو (تجھے چاہئے کہ) اسے اپنا قصور سمجھے ،خدائے تعالیٰ کی شکایت نہ کرے (کیوں ) کہ اس کی عطا میں  نقصان (یعنی کوئی کمی) نہیں ، تیری دعا میں  نقصان (یعنی کمی) ہے۔
 اے عزیز!دعا چند سبب سے رد ہوتی ہے:
پہلا سبب:کسی شرط یا ادب کا فوت ہونا اور یہ تیرا قصور ہے ،اپنی خطا پر نادم نہ ہونا اور خدا کی شکایت کرنا نِری بے حیائی ہے ۔
دوسرا سبب: گناہوں سے تَلَوُّث (یعنی گناہوں  میں  مبتلا رہنا)۔
تیسرا سبب:اِسْتِغنائے مولیٰ۔وہ حاکم ہے محکوم نہیں ،غالب ہے مغلوب نہیں  ،مالک ہے تابع نہیں  ،اگر (اس نے) تیری دعا قبول نہ فرمائی (تو) تجھے ناخوشی اور غصے، شکایت اور شکوے کی مجال کب ہے ،جب خاصوں  کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب چاہتے ہیں  عطا کرتے ہیں  ،جب چاہتے منع فرماتے ہیں  تو تُو کس شمار میں  ہے کہ اپنی مراد (ملنے ہی) پر اِصرار کرتا ہے ۔
چوتھا سبب:حکمت ِ الٰہی ہے کہ کبھی تو براہِ نادانی کوئی چیز اس سے طلب کرتا ہے اور وہ براہِ مہربانی تیری دعا کو اس سبب سے کہ تیرے حق میں  مُضِر (یعنی نقصان دِہ) ہے، رد فرماتا ہے (اور اسے قبول نہیں  فرماتا)، مثلاً:تو جویائے سِیم و زَر (یعنی مال و دولت کا طلبگار) ہے اور اس میں  تیرے ایمان کا خطر (یعنی ایمان ضائع ہوجانے کا ڈر) ہے یا تو خواہانِ تندرستی وعافیت (یعنی ان چیزوں  کا سوال کرتا) ہے اور وہ علمِ خدا میں  مُوجبِ نقصانِ عاقبت (یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ تیرے اُخروی نقصان کا باعث) ہے، ایسا رد ،قبول سے بہتر (یعنی ایسی دعا کو قبول کئے جانے کی بجائے رد کر دیناہی بہتر ہے)۔
پانچواں  سبب:کبھی دعا کے بدلے ثوابِ آخرت دینا منظور ہوتا ہے، تو حُطامِ دنیا (یعنی دنیا کاساز وسامان) طلب کرتا ہے اور پروردگار نفائسِ آخرت (یعنی آخرت کی عمدہ اور نفیس چیزیں ) تیرے لیے ذخیرہ فرماتا ہے، یہ جائے شکر (یعنی شکر کا مقام) ہے نہ (کہ) مقامِ شکایت۔
(فضائل دعا، فصل ششم، ص۱۵۳-۱۵۹، ملتقطاً)
نوٹ: دعا کے فضائل و آداب اور اس سے متعلق دیگر چیزوں  کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے والدماجد حضرت علامہ مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شاندار تصنیف ’’اََحْسَنُ الْوِعَاء لِآدَابِ الدُّعَاء‘‘(یہ کتاب تسہیل وتخریج کے ساتھ مکتبۃ المدینہ سے بھی بنام ’’فضائل دعا‘‘ شائع ہوچکی ہے) اورراقم کی کتاب ’’فیضانِ دعا‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ: بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں ۔} یاد رہے کہ جن آیات و اَحادیث میں دعاترک کرنے پر جہنم میں داخلے یا غضبِ الٰہی وغیرہ کی وعیدیں  آئی ہیں ، ان میں وہ لوگ مراد ہیں  جو مُطْلَقاً دعا کو ترک کر دیتے ہیں (یعنی کچھج بھی ہوجائے، ہم نے دعا نہیں کرنی) یا مَعَاذَاللہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بے نیاز سمجھ کر دعا ترک کردیتے ہیں، اور اسی وجہ سے اس کے حضور گریہ و زاری کرنے سے کتراتے اور پرہیز کرتے ہیں اور یہ صورت صریح کفر اور اللہ تعالیٰ کے دائمی غضب کا باعث ہے، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اَحادیثِ سابقہ (جو کہ دوسری فصل، ادب نمبر30 کے تحت ذکر ہوئیں ) جن میں  ارشاد ہوا کہ ’’جو دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرمائے‘‘، ترکِ مُطْلَق ہی پر محمول یا مَعَاذَاللہ، اپنے کو بارگاہِ عزت عَزَّوَجَلَّ سے بے نیاز جاننا، اس کے حضور تَضَرُّع و زاری سے پر ہیز رکھنا کہ اب صریح کفر ومُوجبِ غضبِ اَبدی ہے، ولہٰذا ’’اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ‘‘ (مجھ سے دعا کرو میں  قبول کروں  گا) کے مُتَّصل ہی ارشاد ہوا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں  عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں  جائیں  گے۔)
( فضائل دعا، فصل دہم، ص۲۳۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں  کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعا مانگنے میں  تکبر کرنے سے ہماری حفاظت فرمائے،اٰمین۔
واللہ اعلم بالصواب

کتبہ؛ محمد اشفاق عطاری
مقام ہلکھوری ضلع مہو تری (نیپال)