السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام علمائے کرام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے کہ ہمارے ایک سنی عالم ہے وہ کہتا ہے کہ کافر کو کافر مت کہو اور وہ کہتا ہے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ لو پھر اپنی نماز دوبارا پڑھ لو میں بھی اسے سمجھایا کہ اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی لیکن وہ کچھ سننے کو تیار نہیں ۔۔حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا۔۔۔کچھ غلطی ہو تو اصلاح کریں,
سائل... شفاءالدین احمد قادری رضوی
مقام پالاجوری دیوگھر جھارکھنڈ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ مسلمان کو مسلمان، کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے، اگرچہ کسی خاص شخص کی نسبت یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان یا معاذاللہ کفر پر ہوا، تاوقتیکہ اس کے خاتمہ کا حال دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہو، مگر اس سے یہ نہ ہوگا کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کُفر میں شک کیا جائے، کہ قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے۔ خاتمہ پر بِنا روزِ قیامت اور ظاہر پر مدار حکمِ شرع ہے، اس کو یوں سمجھو کہ کوئی کافر مثلاً یہودی یا نصرانی یا بُت پرست مر گیا تو یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفر پر مرا، مگر ہم کو ﷲ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا حکم یہی ہے کہ اُسے کافر ہی جانیں اس کی زندگی میں اور موت کے بعد تمام وہی معاملات اس کے ساتھ کریں جو کافروں کے لیے ہیں مثلاً میل جول، شادی بیاہ، نمازِ جنازہ، کفن دفن، جب اس نے کفر کیا تو فرض ہے کہ ہم اسے کافر ہی جانیں اور خاتمہ کا حال علمِ الٰہی پر چھوڑیں جس طرح جو ظاہراً مسلمان ہو اور اُس سے کوئی قول و فعل خلافِ ایمان نہ ہو، فرض ہے کہ ہم اسے مسلمان ہی مانیں اگرچہ ہمیں اس کے خاتمہ کا بھی حال معلوم نہیں
اِس زمانہ میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ’’ میاں ۔۔۔! جتنی دیر اسے کافر کہو گے، اُتنی دیر اللہ اللہ کرو کہ یہ ثواب کی بات ہے۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ کافرکافر کا وظیفہ کرلو۔ مقصود یہ ہے کہ اُسے کافر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً کافر کہو،نہ یہ کہ اپنی صُلحِ کل سے اس کے کُفر پر پردہ ڈالو۔
ضروری تنبیہ
حدیث میں ہے (سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ ثَلٰثاً وَّسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً کُلُّھُمْ فِيْ النَّارِ إلَّاوَاحِدَۃً)
’یہ امت تہتّر فرقے ہو جائے گی، ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی۔‘
صحابہ نے عرض کی: ’’مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ اللہِ؟‘’’وہ ناجی فرقہ کون ہے یا رسول اللہ
فرمایا: (مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ۔)
’وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ‘‘، یعنی سنّت کے پیروی
دوسری روایت میں ہے، فرمایا (ھُمُ الْجَمَاعَۃُ۔)
وہ جماعت ہے۔‘ یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جسے سوادِ اعظم فرمایا اور فرمایا: جو اس سے الگ ہوا، جہنم میں الگ ہوا۔ اسی وجہ سے اس ’’ناجی فرقہ‘‘ کا نام ’’اہلِ سنت و جماعت‘‘ ہوا۔اُن گمراہ فرقوں میں بہت سے پیدا ہو کر ختم ہو گئے، بعض ہندوستان میں نہیں
ان فرقوں کے ذکر کی ہمیں کیا حاجت کہ نہ وہ ہیں ، نہ اُن کا فتنہ، پھر ان کے تذکرہ سے کیا مطلب؟!
جو اِس ہندوستان میں ہیں مختصراً ان کے عقائدکا ذکر کیا جاتا ہے، کہ ہمارے عوام بھائی ان کے فریب میں نہ آئیں کہ
حدیث میں اِرشاد فرمایا: (إِ یَّاکُمْ وَإِ یَّاھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ)
’اپنے کو اُن سے دُور رکھو اور اُنھیں اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کر دیں، کہیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔‘‘
(بہار شریعت جلد 1 ح 1 ص 185 تا 189)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد اشفاق عطاری
مقام ہلکھوری ضلع مہوتری نیپال طالب علم جامعتہ المدینہ فیضان عطار نیپال گنج نیپال
ہمیں فالو کریں