السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام مفتیان کرام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ اگر کسی اولیائے کرام یعنی ایک صدی 100 سال یا اس سے پرانی قبر سے مردے کو باہر نکالنا پڑ جائے کسی مجبوری کی وجہ سے تو اس کے لیے کیا حکم ہے
السائل؛ محمد جاوید رضا جموں وکشمیر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ہدایت الحق بالصواب
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي لتَدْفِنَهُ فِي مَقَابِرِنَا فَنَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُدُّوا الْقَتْلَى إِلَى مَضَاجِعِهِمْ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَلَفظه لِلتِّرْمِذِي
روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں جب احد کا دن ہوا تو میری پھوپھی میرے باپ کو لائیں تاکہ انہیں اپنے قبرستان میں دفن کریں تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ "وسلم کے اعلانچی نے اعلان کیا کہ شہداءکو ان کے قتل گاہ کی طرف واپس کرو (ترمذی،ابوداؤد،نسائی،دارمی)
اس سےمعلوم ہوا کہ میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا منع ہے
نقل میت
کا مسئلہ بڑے معرکہ کا ہے۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ممانعت صرف شہدائے احد کے لیئےتھی تاکہ تمام شہدا ایک جگہ رہیں،زائرین کو ان کی زیارت میں آسانی ہو اور وہ شہداءبھی اس میدان پاک کی برکت سے فائدہ حاصل کریں کیونکہ احدحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب پہاڑہے اور محبوب کے پاس دفن ہونا بھی اچھا۔خیال رہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چھ مہینہ کے بعد اپنے والد کی نعش مبارک وہاں سے منتقل کی اور جنت البقیع میں دفن کی یہ کام کسی ضرورت کی وجہ سے ہو اسی لیئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت منع نہ فرمایا۔نقل میت کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ بعد دفن قبر کھول کر نعش منتقل کرنا یا اتنی دور میت کو لے جانا کہ جہاں تک پہنچتے ہوئے میت کے بگڑ جانے کا خطرہ ہو ممنوع ہے لیکن اگر یہ وجوہ نہ ہو تو کسی فائدہ صحیحہ کے لیئے میت کو منتقل کرنا جائز ہے۔چنانچہ حضرت سعد ابن وقاص کا جنازہ ان کے محل سے جو مدینہ پاک سے دس میل تھا مدینہ لایا گیا،بعددفن میت کو نکالنا سخت منع ہے اسی لیئے بعض صحابہ کرام کفار کی زمین میں دفن ہوئے تو انہیں وہیں رکھا گیا حتی کہ اگر میت بلاغسل و نماز بھی دفن ہوگیا ہو تو اسے نہیں نکال سکتے۔
یوسف علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام کے تابوتوں کو جومصر سے شام کی طرف منتقل کیا گیا یہ ان دینوں میں جائز تھا ہمارے ہاں ممنوع لہذا روافض جو امانت کرکے مردے کو دفن کرتے ہیں سخت ناجائز ہے۔قبر اکھیڑنے کی صرف ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ مردہ کسی غیر کی زمین میں بغیر مالک کی اجازت دفن کردیا گیا ہو تو مالک مردے کو نکلوا کر اپنی زمین خالی کراسکتا ہے۔وہ جو فقہاء فرماتے ہیں کہ جب میت گل جائے تو قبر پر کھیتی باڑی بھی کرسکتے ہیں،اس سے یہی مراد ہے ورنہ قبر وقف ہوتی ہے اس پر کھیتی کیسی
(مراةالمناجیح شرح مشکوة المصابیح جلددوم حدیث
نمبر926مشکوٰۃ شریف)
مردہ کو دفن کرنے کا بیان
باب: میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا
مسئلہ؛ مضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب غزوہ احد ہوا تو میری پھوپھی میرے والد (کی نعش) لے کر آئیں تاکہ انہیں میں اپنے قبرستان میں دفن کریں، لیکن رسول کریم ﷺ کی طرف سے ایک منادی کرانے والے نے اعلان کیا کہ شہیدوں کو ان کے شہید ہونے کی جگہ پہنچا دیا جائے ۔
(احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی دارمی)
(الفاظ ترمذی کے ہیں۔ تشریح:)
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب غزوہ احد اور بعض مسلمان شہید ہوئے تو میرے والد مکرم بھی ان شہیدوں میں تھے چناچہ میری پھوپھی میرے والد کی نعش میدان کارزار سے شہر لائیں تاکہ انہیں اپنے قبرستان یعنی جنت البقیع میں دفن کردیا جائے لیکن حضور ﷺ کی طرف سے ایک شخص نے اعلان کیا کہ شہداء جس جگہ شہید کئے گئے ہیں انہیں دفن کیا جائے۔ یہ حدیث کی وضاحت تھی اب مسئلہ کی طرف آئیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ جیسا کہ اس حدیث میں حضور ﷺ کا حکم نقل کیا گیا ہے جو شخص جس شہر میں انتقال کرے اسے اسی شہر میں دفن کیا جائے اس کی نعش دوسرے شہر میں منتقل نہ کی جائے چناچہ کتاب ازہار میں لکھا ہے کہ نقل میت کے عدم جواز کے سلسلہ میں یہ حدیث ایک مضبوط اور قوی تر دلیل ہے لیکن اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ یہاں حدیث میں میت کو منتقل کرنے کی جو ممانعت فرمائی گئی ہے اسے صرف شہداء کے ساتھ مختص کیا جائے اور اس سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ممانعت میت کو دفن کرنے کے بعد بغیر کسی عذر کے منتقل کرنے پر محمول کی جائے یعنی اگر میت دفن کردی جائے تو اب اس کے بعد کسی صحیح عذر کے بغیر کسی دوسری جگہ اسے منتقل کرنا ممنوع ہے۔ علامہ یحییٰ رحمہ اللہ اس مسئلہ میں یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آجائے تو میت کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے لیکن بغیر ضرورت کے جائز نہیں ہے محقق علامہ ابن ہمام کا قول یہ ہے کہ اگر میت کو دفن کرنے اور قبر کی تیاری سے پہلے ایک دو کوس کے فاصلے پر منتقل کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ قبرستان اتنے فاصلہ پر ہوا کرتے ہیں علماء لکھتے ہیں کہ میت کو اسی شہر کے قبرستان میں دفن کرنا مستحب ہے جہاں اس کا انتقال ہوا ہے چناچہ منقول ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال مکہ سے ایک منزل کے فاصلے پر ہوا تو ان کا جنازہ دفن کرنے کے لئے مکہ مکرمہ لایا گیا۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ان کی قبر پر تشریف لائیں تو فرمایا کہ اگر میں تمہارے انتقال کے وقت موجود ہوتی تو تمہیں یہاں منتقل نہ کرتی بلکہ وہیں دفن کرتی جہاں انتقال ہوا تھا
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ؛ اسیر حضور صدرالشریعہ و حضور محدث کبیر، وخلیفہ حضور ارشدملت مصنف فتاوی اسمٰعیلیہ فقیر
محمد اسماعیل خان امجدی قادری رضوی ارشدی حنفی گونڈوی
ہمیں فالو کریں