کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں, کہ ربیع الاول کی مبارک بادی دینا کیسا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے واضح فرمائیں یہ کیسا بدعت ہے۔ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
المستفتی نیاز احمد رضا عطاری مرادآباد الہند۔

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
ربیع الاول کی مبارک بادی دینا جائز ہے کسی کام کے ناجائز ہونے کا دارومدار اس بات پر نہیں کہ یہ کام حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  یا صحابہ ٔکرام علیہمُ الرِّضوان  نے نہیں کیا بلکہ مدار اس بات پر ہے کہ اس کام سے  اللہ  اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر منع فرمایا ہے تو وہ کام ناجائز ہے اور منع نہیں فرمایا تو جائز ہے۔ کیونکہ فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ *’’الاصل فی الاشیاء الاباحۃ‘‘* ترجمہ: تمام چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں۔ یعنی ہر چیز مباح اورحلال ہے ہاں اگر کسی چیز کو شریعت منع کردے تو وہ منع ہے، یعنی ممانعت سے حرمت ثابت ہوگی نہ کہ نئے ہونے سے۔ یہ قاعدہ قرآنِ پاک اور احادیثِ صحیحہ و اقوالِ فقہا سے ثابت ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: *( وَ اِنْ تَسْــٴَـلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ-عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ-)* ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں توتمہیں بُری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھوگے کہ قرآن اُتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرماچکا ہے۔(پ7، المائدہ:101)

صدر الافاضل حضرت علّامہ مولانا سیّد محمد نعیمُ الدّین مُرادآبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں: ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس اَمر کی شَرع میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح ہے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا حرام وہ ہے جس کو اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا وہ معاف ہے تو کلفت میں نہ پڑو۔‘‘ (خزائن العرفان،ص224)
حدیثِ پاک میں ہے: *’’الحلال ما احل اللہ  فی کتابہ والحرام ما حرم اللہ فی کتابہ و ما سکت عنہ فھو مما عفٰی عنہ‘‘* ترجمہ: حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جس پر  خاموشی فرمائی وہ معاف ہے۔  (ترمذی،ج3،ص280، حدیث:1732) چونکہ ربیع الاول مسلمانوں کے لئے سبھی عیدوں سے بھی بڑھ کر ہے اور اسے  ممانعت قرآن و حدیث، اقوالِ فقہا نیز شریعت میں کہیں بھی وارد نہیں، لہٰذا ربیع الاول، کی مبارکباد جشنِ ولادت کی مبارک باد دینا جائز ہے صدیوں سے علما نے اسے جائز ہی سمجھا ہے اور کیوں نہ سمجھے خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے *( وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠(۱۱))* (پ30، والضحٰی:11) ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔  جب ہمارا رب کہ رہا ہے کہ میری نعمت کا خوب چرچا کرو۔اس لئے ہم اپنے اسلامی بھائیوں کو ربیع الاول کو مبارک بادی دینا بھی اللہ کی نعمت کا چرچا کرنا کرنا ہوا۔کیونکہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔
اور یہ کہنا کہ ’’ہرنیا کام گمراہی ہے‘‘ دُرست نہیں کیونکہ بدعت کی ابتدائی طور پر دو قسمیں ہیں بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ۔ بدعتِ حسنہ وہ نیا کام ہے جو کسی سنّت کے خلاف نہ ہو جیسے مَوْلِد شریف کے موقع پر محافلِ میلاد، جلوس، سالانہ قراءَت کی محافل کے پروگرام، ختم بخاری کی محافل۔ربیع الاول کی مبارک باد،جمعہ کی مبارک بادی دینا وغیرہ۔
بدعتِ سیّئہ وہ ہے جو کسی سنّت کے خلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہوجیسے غیرِ عربی میں خُطبۂ جُمعہ و عیدین۔
 چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی  اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: ’’معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکلا اور ظاہر ہوا بدعت کہلاتا ہے پھر اس میں سے جو کچھ اصول کے موافق اور قواعد سنّت کے مطابق ہو اور کتاب و سنّت پر قیاس کیا گیا ہو بدعتِ حسنہ کہلاتا ہے اور جو ان اصول و قواعد کے خلاف ہو اسے بدعتِ ضلالت کہتے ہیں۔ اور کل بدعۃ ضلالۃ  کا کلیہ اس دوسری قسم کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات مترجم،ج1،ص422)

بلکہ حدیث پاک میں نئی اور اچّھی چیز ایجاد کرنے والے کو تو ثواب کی بشارت ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے: *”مَنْ سَنَّ في الإسلامِ سنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورهمْ شَيءٌ، وَمَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيهِ وِزْرُهَا، وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهمْ شَيءٌ‘‘* ترجمہ: جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے ثواب ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے تمام کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ا ن کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ اور جو شخص اسلام میں بُرا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے گناہ ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی گناہ ملے گا اور ان کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔(مسلم، ص394، حدیث:1017۔بحوالہ فتاوی اہلسنت ماہنامہ فیضان مدینہ دعوت اسلامی ربیع الاول ۱۴۴۰ ہجری نومبر،دسمبر ۲۰۱۸۔
 ربیع الاول کی مبارک باد بھی ایک اچّھا کام ہے جو کسی سنّت کے خلاف نہیں بلکہ اپنے رب کے فرمان پر عمل ہو رہا ہے لہذا مبارک بادی دینا جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

از قلم فقیر محمد اشفاق عطاری سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۰۱ ربیع الاول ۱۴۴۲ ہجری ۱۹ اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز پیر