السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جوا تاش کے پتے اور شطرنج کھیلنا کیسا ہے؟
جزاک اللّٰہ تبارک و تعالیٰ خیرا کثیرا فی الدارین -
سائل..... محمّد سلمان رضا صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
اس سوال کے متعلق جواب میں سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ دونوں تاش اور شطرنج ناجائز ہے -
(فتاویٰ رضویہ شریف مترجم " جلد /24 "صفحہ نمبر "113)
اور فقیہ اعظم ہند حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمۃ والرضوان اپنی کتاب مشہور زمانہ بہار شریعت میں شعب الایمان کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ
بیہقی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی, وہ فرماتے ہیں , شطرنج عجمیوں کا جوا ہے , اور ابن شہاب نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی, وہ کہتے ہیں کہ شطرنج نہیں کھیلے گا مگر خطا کار - اور انہیں سے دوسری روایت یہ ہے کہ وہ باطل سے ہے اور اللہ تعالیٰ باطل کو دوست نہیں رکھتا -
(شعب الایمان " باب فی تحریم الملاعب والملاھی , الحدیث: 6518, جلد پنجم" صفحہ نمبر "241)
(بحوالہ "بہار شریعت " حصہ شانزدہم " صفحہ نمبر " 512)
نیز آگے فرماتے ہیں کہ (گنجفہ)(یعنی ایک کھیل کا نام جو تاش کی طرح کھیلا جاتا ہے اس میں 96 پتے اور آٹھ رنگ ہوتے ہیں اور تین کھیلتے ہیں - اور چوسر, یعنی نرد شیر (چوسر) ایک کھیل ہے , ایک بادشاہ اَرد شیر بن بابک نے یہ جوا ایجاد کیا تھا) ان کا کھیلنا ناجائز ہے شطرنج کا بھی یہی حکم ہے , اسی طرح لہو لعب کی جتنی قسمیں ہیں سب باطل ہیں صرف تین قسم کے لہو لعب کی حدیث شریف میں اجازت ہے جو درج ذیل ذکر کیا جاتا ہے،
(1) بی بی سے ملاعبت
(2) گھوڑے کی سواری
(3) تیر اندازی کرنا
(الدر المختار " کتاب الحظروالاباحۃ , فصل فی البیع, جلد نہم " صفحہ نمبر "650 , وغیرہ)
(بحوالہ "بہار شریعت" حصہ شانزدہم " صفحہ نمبر " 514)
تو مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ صاف ظاہر و باہر ہوگیا کہ شطرنج, تاش, یا چوسر , کا کھیلنا عندالشرع جائز نہیں - گویا جس کا کھیلنا جائز نہیں وہ یقیناً گناہ سے خالی نہیں "
واللّٰہ تبارک تعالیٰ اعلم بالصواب
المفتقر الی رحمۃ اللہ التواب
کتبہ؛محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی
خطیب و امام جامع مسجد مہاسمندد (چھتیسس گڑھ) (الھند)
منجانب؛ محفل غلامان مصطفیٰﷺگروپ
ہمیں فالو کریں