السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
رَضوی صحیح ہے یا رِضوی جو اعلیٰ حضرت کے گھرانے والوں سے بیعت ہو وہ ان میں سے کیا لکھنا صحیح ہے ؟
سائل۔محمد رئیس رضوی (بلاس پور چھتیس گڑھ)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مستفسرہ میں رَضوی بفتح الراء اور رِضوی بکسر الراء دونوں درست ہیں، اب جو خانوادۂ رضویہ میں کسی کے حق پرست پر بیعت ہو، تو یہ ضروری نہیں کہ جب تک اپنے نام کے ساتھ ان کے نام کو نہ لگائے تو ان کا مرید نہیں سمجھا جائیگا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے، کہ ان کے فرمان کے مطابق اپنی زندگی گزارے،
لیکن اگر وہ نام کے ساتھ چشتی، قادری، حنفی، برکاتی، صابری، وارثی لگاتا ہے تو اس میں شرعا کوئی حرج وقباحت نہیں،
لیکن رَضوی بفتح الراء لگانا زیادہ بہتر ومناسب ہے رِضوی بکسر الراء کے بالمقابل کیونکہ رِضوی آجکل یہ شیعہ بھی اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں تو لہٰذا اس سے اجتناب واعراض لازمی ہے، اور بہتر ومناسب رَضوی ہی ہے کیونکہ عرف میں زیادہ تر رَضوی بفتح الراء کے ساتھ مستعمل ہے۔
جیسا کہ فتاویٰ شارح بخاری میں ہے
حضرت مفتی شریف الحق امجدی المعروف حضور شارح بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان ایک سائل کے جواب جو رَضا بفتح الراء اور رِضا بکسر الراء کے متعلق تھا تو آپ اس سوال کے جواب میں کچھ اس طرح رقم طراز ہوئے۔کہ مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ اور حضور مفتئ اعظم ھند اور حجۃ الاسلام کے اسمائے گرامی میں رَضا بالفتح ہے۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے اڪابر سے بالفتح ہی سنا ۔ان اسمائے مبارکہ میں فارسی ترکیب ہے۔اور فارسی میں رَضا بالفتح مستعمل ہے ۔فارسی کی مشہور لغت غیاث اللغات میں ہے۔رِضا بکسر: خوشنودی، بفتح خوشنود شدن۔در منتخب بہمہ معنٰی بفتح نوشتہ وصاحب کشف وصراح ومزیل الاغلاط وابن حاج بمعنی اول بکسر نوشتہ اند مجھے صرف اتنا بتانا ہے کہ فارسی میں اس کا تلفظ "ر" کے کسرہ وفتحہ کے ساتھ ہے۔اور یہی حال اردو کا بھی ہے۔
جیسا کہ فیروزاللغات وغیرہ میں ہے ۔جب فارسی میں اس کا تلفظ بالفتح وبالکسر دونوں ہے تو اس کو از روئے لغت دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں۔لیکن یہ اسماء اعلام ہیں اور اعلام میں تغیر جائز نہیں ۔نام رکھنے والوں نے جس طرح نام رکھا ہے، اسی طرح رہے ۔اور جب یہ ثابت ہے کہ ان بزرگوں کے اسماۓ مبارکہ راء کے فتحہ کے ساتھ ہیں تو اس کو کسرہ کے ساتھ پڑھنا درست نہیں۔
کچھ لوگوں کو اشتباہ اس وجہ سے ہے، کہ رضا عربی لفظ ہے اور عربی کی تمام لغات میں بکسر راء ہے، لیکن شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ عربی سے فارسی میں منقولہ الفاظ میں بہت سے تغیرات ہوئے اور ان تغیرات کو اھل لسان نے برقرار رکھا اور وہی فصیح مانا گیا اور
"الغلط العام فصیح"
کا بھی یہی مقتضا ہے بلکہ اگر صاحب منتخب کا بیان صحیح ہے تو عربی میں بھی راء کے فتحہ کے ساتھ آیا ہے ، تو اب کوئی اشکال ہی نہیں ہے۔بہر حال اس خادم کو بھی یہی معلوم ہے کہ اسمائے مبارکہ راء کے فتحہ کے ساتھ ہیں۔المعجم الوسیط میں بکسر راء ہی ہیں ۔
📖اور مصری طریقہ یہ ہے کہ مشدد حرف پر تشدید کے نشان پر اگر اوپر حرکت ہے تو فتحہ ہے اور تشدید کے نیچے ہے تو کسرہ ہے۔اس خادم کا طریقہ ہے کہ اس سلسلے میں تشدد نہیں کرتا، اور نہ کسی کو ٹوکتا ہے۔
(فتاویٰ شارح بخاری، کتاب العقائد، جلد سوم، صفحہ ۳۴۴)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
المفتقر الی رحمۃ اللہ التواب
کتبہ؛ محمد ندیم رضا حشمتی امجدی عفی عنہ
(پیلی بھیت شریف)
ہمیں فالو کریں