السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کمبل کی تصغیر جیسا کہ کملی ہے تو پھر کیا کملی والے آقاﷺکہنا صحیح ہے یا نہیں 
اور شاید حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا فتویٰ بھی اس پر ہے ۔ مفصل جواب عنایت فرمائیں
 السائل... احمد حسین رضوی گھوسی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
فرہنگ آصفیہ جلد دوم صفحہ نمبر 565/ میں ہے "کملی" کمبل کی تصغیر - ایک قسم کی اونی پوستیں جو بکریوں اور بھیروں کی کھال سے تیار کی جاتی ہے -اسے غریب درویش لوگ پہنا کرتے ہیں- فیروزاللغات ص:766/ میں ہے "کملی"کمبل کی تصغیر - چھوٹا کمبل بناء علیہ حضور اقدس ﷺ کے لباس کو کملی کہنا ممنوع ہے ,
شامی میں ہے ("مجرد ایھام المعنی المحال کاف للمنع ")
کسی ناروا معنی کا ایہام منع کے لئے کافی ہے, 
(شامی"جلد نہم" صفحہ نمبر" 567 " کتاب الحظر والاباحۃ /باب الاستبراء وغیرہ , دارالکتب العلمیۃ , لبنان)
اس کی نظیر راعنا ہے- عربی زبان میں یہ مراعات باب مفاعلت سے امر کا صیغہ ہے جس کے ساتھ ضمیر منصوب جمع متکلم ہے جس کے معنی عربی زبان میں یہ ہیں ” ہمارے رعایت فرماٸیں” 
(یہود کی لغت میں راعی کے معنی احمق کے ہیں )حضور اقدس ﷺ کے ارشاد کو جب صحابۂ کرام اچھی طرح سن نہ پاتے یا سمجھ نہ پاتے تو عرض کرتے ”راعنا” (ہماری رعایت فرماٸیں) - یہود کی لغت میں راعی کے معنی احمق کے ہیں -
یہ گستاخ قوم اپنی فطری بدباطنی کی وجہ سے حضور اقدس ﷺ کو راعنا کہتے ۔ اور قرآن شریف میں راعنا کہنے سے منع فرمایا گیا - لہذا انھیں ہدایت کردی گئی کہ بجاۓ راعنا  کے ”انظرنا”کہو۔ 
ارشاد ہے"یایھاالذین اٰمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا"
اے ایمان والوں ! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں -
(قرآن مجید" سورۃ البقرۃ پارہ 1- آیت نمبر" 104)
یہاں لغات دو ہیں- تلفظ بھی الگ الگ تھا پھر بھی منع فرمایا گیا- اور یہاں کملی میں ایک ہی زبان میں تصغیر ہے , اگرچہ دوسرا معنی بھی ہے اس لئے یہ بدرجئہ اولی ممنوع ہوگا اگرچہ بولنے والے کی نیت تصغیر کی نہ ہو,  دوسرا معنی ہو - اس لئے کہ معاذاللہ اگر تصغیر کی نیت سے بولے گا تو کفر ہے اور یہاں کملی میں ایک ہی لغت ہے , تصغیر کا بھی معنی ہے,  اس لئے یہ بدرجئہ اولی ممنوع ہوگا - یہ حکم اس وقت تک ہے کہ حضور اقدس ﷺ کو مطلقاً کملی والے کہا جاۓ لیکن حضور اقدس ﷺ کبھی چھوٹا کمبل بھی استعمال فرماتے تھے - اب اگر حدیث میں اس کو بیان کرنے کے لئے کوئی لفظ وارد ہو تو اس کے ترجمہ میں کملی استعمال کیا جا سکتا ہے,  اسی طرح بعض صوفیاۓ کرام چھوٹا کمبل استعمال فرماتے ہیں اس کے ذکر میں کملی استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں - ان دونوں صورتوں میں متعین ہے کہ کملے تصغیر کے لئے نہیں بلکہ بیان واقعہ ہے لیکن حضور اقدس ﷺ کو مطلقاً کملی والے کہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے عام لباس کو کملی کہا - حالانکہ حضور اقدس ﷺ کا عام لباس کمبل نہیں - علاوہ ازیں حضرات انبیاۓ کرام کا ذکر ایسے صفات سے کرنا ممنوع ہے جس میں کوئ فضیلت نہ ہو - جیسا کہ شفا اور اس کی شروح میں مذکور ہے - یعنی حضور کے محاسن بیان کرنے کے دوران جیسا کہ لوگ کملی والے کو استعمال کیا کرتے ہیں عموماً نعت خواں اس کو استعمال کرتے ہیں , جس کا مقصد فضائل , کمالات بیان کرنا ہے , ظاہر ہے کہ کملی والے ہونے میں کوئی فضیلت نہیں - اس لئے مقام مدح میں استعمال سے بچنا لازم ہے "
(بحوالہ "فتاویٰ شارح بخاری کتاب العقائد " جلد اول" صفحہ نمبر" 535 تا 536)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
المفتقر الی رحمۃ اللہ التواب
کتبہ؛ محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی
خطیب و امام جامع مسجد مہاسمند (چھتیس گڑھ)

منجانب؛ محفل غلامان مصطفیٰﷺگروپ