السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام  اس مسئلہ میں کہ اذان کے درمیان افطار کرنا عندالشرع کیسا ہے؟
سائل زبیر چھپرو
و علیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب افطار میں تعجیل مستحب ہے
حدیث شریف میں ہے 
" قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم قال اللہ عزوجل احب عبادی الی اعجلھم فطرا "
یعنی مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے اھ "
ترمذی شریف جلد اول صفحہ150)
لہٰذا جب سورج ڈوبنے کا یقین ہوجائے تو فوراً افطار کرلے تاخیر نہ کرے اور جو لوگ آذان کی آواز سن کر افطار پر مطلع ہوتے ہیں انہیں بھی چاہیئے کہ آذان شروع ہوتے ہی فوراً افطار کرلیں ختم آذان تک انتظار نہ کریں مگر افطار کرکے آذان مکمل ہونے تک کھانا پینا موقوف رکھیں اور کلمات آذان کا جواب دیں" زبان سے آذان کا جواب دینا واجب نہیں بلکہ صرف مستحب ہے  ہاں اجابت بالقدم واجب ہے 
📄جیسا کہ درمختار کتاب الاذان میں ہے 
" ویجیب وجوبا وقال الحوانی ندبا والواجب الاجابۃ بالقدم "اھ
  (الدرالمختار فوق ردالمحتار جلد اول صفحہ 396 )
افطار کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ قبل آذان ہی افطار کرلے اور اگر آذان شروع ہونے پر افطار کرے تو تھوڑا کھا پی کر ٹھہر جائے کہ آذان کے وقت حکم ہے کہ جب آذان ہوتو اتنی دیر کیلئے سلام کلام تمام اشغال موقوف کردے یہاں تک کہ قرآن مجید کی تلاوت میں آذان کی آواز آئے تو روک دے اور آذان کا خاموشی سے جواب دے
📄جیسا کہ فتاوی عالمگیری کتاب الاذان میں ہے 
*" ولاینبغی ان یتکلم السامع فی خلال الاذان والاقامۃ ولا یشتغل بقراءۃالقرآن ولا بشئ من الاعمال سوی الاجابۃ ولو کان فی القراءۃ ینبغی ان یقطع ویشتغل بالاستماع والاجابۃ کذافی البدائع"*
( فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ 57 ")
(ماخوذ فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد اول صفحہ 471 روزہ کا بیان ")
(ایساہی فتاویٰ فیض الرسول جلد اول صفحہ 513 ""/ فتاویٰ اکرمی صفحہ 197 پرہے  )

واللہ اعلم باالصواب 
کتبہ
حضرت مولانا محمد ریحان رضا رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی فرحاباڑی ٹیڑھاگاچھ وایہ بہادر گنج ضلع کشن گنج بہار انڈیا*
 ۳ رمضان المبارک ۱۴۴۱؁ھ مطابق ۲۸ اپریل ٠٢٠٢؁ء بروز سوموار