السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماے کرام اس مسئلہ کے بارے میں۔ بدعت کی کتنی قسمیں ہیں
 سائل: محمد ظفیر الحسن

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب
بدعت کی تین قسمیں ہیں
بدعت سیئہ، 
بدعت حسنہ، 
بدعت مباح
ضروری تنبیہ:  وہابیوں کے یہاں بدعت کا بہت خرچ ہے، جس چیز کو دیکھیے بدعت ہے، لہٰذا بدعت کسے کہتے ہیں   اِسے بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بدعتِ مذمومہ و قبیحہ وہ ہے جو کسی سنّت کے مخالف ومزاحم ہو، اور یہ مکروہ یا حرام ہے۔ اور مطلق بدعت تو مستحب، بلکہ سنّت، بلکہ واجب تک ہوتی ہے۔
حضرت امیر المؤمنین عمر فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تراویح کی نسبت فرماتے ہیں:
(نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ۔)
_’’یہ اچھی بدعت ہے۔‘‘_
عن عبد الرحمن بن عبد القاري أنّہ قال: خرجت مع عمر بن الخطاب في رمضان إلی المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون یصلي الرجل لنفسہ، ویصلي الرجل فیصلي بصلاتہ الرہط، فقال عمر: (واللّٰہ إني لأراني لو جمعت ہؤلاء علی قاریٔ واحد لکان أمثل، فجمعہم علی أبي بن کعب، قال ثم خرجت معہ لیلۃ أخری والناس یصلون بصلاۃ قارئہم فقال عمر: نعمت البدعۃ ہذہ، والتي تنامون عنہا أفضل من التي تقومون یعني: آخر اللیل وکان الناس یقومون أولہ)۔
حالانکہ تراویح سنّتِ مؤکدہ ہے، جس امر کی اصل شرع شریف سے ثابت ہو وہ ہرگز بدعتِ قبیحہ نہیں   ہوسکتا، ورنہ خود وہابیہ کے مدارس اور اُن کے وعظ کے جلسے، اس ہیأتِ خاصہ کے ساتھ ضرور بدعت ہوں   گے۔ پھر انھیں   کیوں   نہیں   موقوف کرتے۔۔۔؟ مگر ان کے یہاں   تو یہ ٹھہری ہے کہ محبوبانِ خدا کی عظمت کے جتنے اُمور ہیں  ، سب بدعت اور جس میں   اِن کا مطلب ہو، وہ حلال و سنت۔
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّابِاللہِ۔
(حوالہ بہار شریعت حصہ اول صفحہ نمبر 234)
واللہ اعلم بالصواب

کتبہ؛ محمد اشفاق عطاری  صاحب 
•─────────────────────•
   (محفل غلامان مصطفیٰﷺ گروپ)
•─────────────────────•