السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ ذیل میں مثلاً کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہے تو کیا نماز شروع کرنے سے پہلے تکبیر کا کہنا ضروری ہے یا نہیں شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین کرم ہوگا 
سائل: محمد حسن رضا بہار 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایت الحق والصواب 
اولاً یہ جاننا ضروری ہیکہ نماز جماعت مستحبہ کیلئے اذان و اقامت کہنا سنت مؤکدہ ہے ہاں اگر سائل مسافر ہے اکیلا ہو یا کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ فرض نماز کے لئے اذان واقامت دونوں کہے گا اور اگر صرف اقامت پر اکتفا کرے تو جائز ہے , مگر یہ حکم مسجد محلہ کے علاوہ کے لئے ہے , اور مسجد محلہ میں نماز ہوجانے کے بعد اگر اکیلا نماز پڑھتا ہے تو اسے اذان واقامت کہنا مکروہ ہے , اور مقیم اگر شہر یا دیہات میں اپنے گھر میں نماز ادا کرے تو اذان واقامت دونوں چھوڑنا جائز ہے کہ مسجد محلہ کی اذان واقامت اس کے لئے کافی ہے , مگر یہ حکم اس جگہ کے لئے ہے جہاں محلہ کی مسجد میں اذان واقامت ہوتی ہے , اور جہاں مسجد ہی نہ ہو یا مسجد تو ہو مگر اس میں اذان واقامت نہ ہوتی ہو تو اس جگہ اپنے گھر میں نماز پڑھنے والے کو اذان واقامت دونوں چھوڑنا یا صرف اذان پر اکتفا کرنا مکروہ ہے, 
البتہ صرف اقامت پر اکتفا کرنا جائز ہے, شرح وقایہ میں ہے یأتی بھما المسافر " اور اس کے حاشیہ عمدۃ الرعایہ میں ہے ,المسافر منفرداکان او مع الرفقاء یکرہ لہ ترکھما والاکتفاء بالاذان ویجوز لہ الاکتفاء بالاقامۃ "اھ) اور اسی میں ہے (ان صلی منفردافی المسجد بعد ما صلی فیہ فانہ یکرہ لہ فعلھما ذکرہ فی الذخیرۃ وغیرہ "اھ) 
اور پھر چند سطر بعد ہے (المصلی فی بیتہ فی مصر ان ترک کلا منھما یجوز لقول ابن مسعود اذان الحی یکفینا وھذا اذا اذان واقیم فی مسجد حیۃ واما فی القریٰ فان کان فیھا مسجد فی اذان واقامۃ فحکم المصلی فیھا کما مر والمصلی فی بیتہ یکفیہ اذان المسجد واقامتہ وان لم یکن فیھا مسجد کذا فمن یصلی فی بیتہ فحکمہ حکم المسافر "اھ) 
البتہ یاد رہے کہ جب مسجد میں جماعت ثانیہ ہو تو صرف اقامت کہہ سکتے ہیں , 
(حوالہ" فتاویٰ فقیہ ملت" جلد اول" صفحہ نمبر" 93/ 94)
 ھذا ماسنح لی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب المفتقر الی رحمۃ اللہ التواب 
کتبہ؛ محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی