السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
(1) غیر مسلم سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دینا کیسا
(2) فون پر بات کرنے میں کوئی سلام کرے اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ غیر مسلم ہے ہے اور سلام کا جواب دے تو کیا حکم ہے
(3) کسی غیر مسلم سے ہاتھ ملا سکتے ہیں جواب عنایت فرمائیں برائے مہربانی
سائل.. محمد عمران رضا ساغر
خطیب وامام سنی نورانی مسجد ہسدرگہ کرناٹک
گاؤں، بہادر گنج ضلع کشن گنج بہار
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ھدایت الحق والصواب
(1)(جواب اول) اگر کوئی غیر مسلم جیسے یہودی, عیسائی, یا مجوسی ,سلام کرے تو مسلمان کو صرف "وعلیکم " کہہ کر جواب دینے میں کوئی مضائقہ نہیں,
اس لئے کہ در مختار میں ہے،
(ولو سلم یھودی او نصرانی او مجوسی علی مسلم فلا بأس بالرد ولٰکن لا یزید علی قولہ وعلیک)
اگر کسی مسلمان کو یہودی, عیسائی یا مجوسی سلام کرے تو اس کا جواب صرف
وعلیکم کہہ کر دینے میں کوئی حرج نہیں,
(ردالمحتار"جلد,9 "صفحہ نمبر "591)
اوپر کی تفصیلی گفتگو سے جو مسئلہ معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ اگر کوئ کافر حربی کسی مسلمان کو سلام کرے تو فقط سلام کے جواب میں وعلیکم کہہ کر جواب دے سکتا ہے اس میں کوئی خرابی نہیں ہاں یہ ضرور یاد رکھیں کہ کسی غیر قوم یعنی کسی کافر کو خواہ وہ حربی و ذمی ہو, یہودی وعیسائ ہو کہ مجوسی اگر کوئی مسلمان اسے تعظیماً سلام کرے تو صرف حرام ہی نہیں بلکہ کفر ہے ,
بہار شریعت میں ہے
کافر کو اگر حاجت کی وجہ سے سلام کیا,مثلاً سلام نہ کرنے میں اندیشہ ہے تو حرج نہیں ,لیکن بقصد تعظیم کافر کو ہرگز ہرگز سلام نہ کرے کہ کافر کی تعظیم کفر ہے,
(بہار شریعت" حصہ 16"صفحہ نمبر"462)
(2) (جواب ثانی) سب سے پہلے یہ جان لیں کہ جب بھی کبھی کسی اجنبی نمبر سے فون آئے اور معلوم نہ ہوکہ مسلمان ہے یا کافر اور سلام کرے تو جواب میں صرف علیکم کہے یا علیکم علٰی من التبع الھدیٰ کہے حضور صدرالشریعہ فرماتے ہیں کہ کفار کو سلام نہ کرے اور وہ سلام کرے تو جواب دے سکتاہے مگر جواب میں صرف علیکم کہے-
(بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۰)
اور اگر کسی نے فون پر انجانے میں کسی کافر کے سلام کا جواب دیا تو اس سے مطلع ہونے کے بعد توبہ واستغفار کرے اور آگے سے کڑی دھیان رکھےـ
(3) (جواب ثالث) واضح رہے کہ جس طرح سلام کرنا سنت ہے اسی طرح مصافحہ کرنا بھی سنت ہے اور جس طرح سلام کرنے سے ایک دوسرے کی تعظیم ہوتی ہے اسی طرح مصافحہ میں بھی ایک دوسرے کی تعظیم ہے اور یہ سلام ومصافحہ اگر کسی مسلم کے حق میں ہے تو ادائیگی سنت کی بناپر ثواب کا مستحق ہے اور اگر کسی کافر کے حق میں بطور تعظیم ہے تو کفر ہے اور اگر کسی مجبوری کے تحت کسی کافر سے سلام یا مصافحہ کرتا ہے تو شریعت مطہرہ میں اسکی چھوٹ ہے،
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ کافر کو اگر حاجت کی وجہ سے سلام کیا مثلا سلام نہ کرنے میں اس سے اندیشہ ہے تو حرج نہیں اور بقصد تعظیم کافر کو ہرگزہرگز سلام نہ کرے کہ کافر کی تعظیم کفرہے-
(بہارشریعت،ج ۳،ح۱۶،ص(۹۰)
لہٰذا معلوم ہوا کہ کسی کافر کو جس طرح سلام کرنا جائز نہیں اسی طرح مصافحہ کرنابھی جائز نہیں مگر بوقت اندیشہ جس طرح ظاہری اعتبار سے سلام کرسکتا ہے اسی طرح مصافحہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں"
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ؛ محمد امجد علی نعیمی
مقام رائے گنج اتردیناج پور (مغربی بنگال )
خطیب و امام مسجد نیم والی مرادآباد اترپردیس
ہمیں فالو کریں