السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
سُوال؛ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
(1)جو شخص داڑھی نہیں رکھتا ہو تو کیا وہ شخص آذان و تکبیر پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ 
(2) ایک ایسی مسجد ہے جس کے اوپر یا اسکے نیچے امام صاحب کے رہنے کا انتظام ہے لیکن غسل خانہ میں جانے کا راستہ اسی مسجد کے اندر ہی سے ہے تو اب امام صاحب کو اگر غسل واجب ہو تو وہ کس طرح غسل خانے میں جائیں گے؟ بحوالہ مدلل و مفصل جواب ارسال فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
سائل: محمّد مرغوب عالم رضوی

وعليكم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسؤلہ میں فقہائے کرام نے بالاتفاق فاسق کی اذان کو مکروہ فرمایا ہے- (تنویر الابصار اور درمختار میں ہے) (یکرہ اذان جنب و امرأۃ و فاسق و لو عالما ھ۱)عورت اور فاسق کی اذان مکروہ ہے اگرچہ وہ عالم ہو
اور کنزالدقائق و بحرالرائق میں ہے-(کرہ اذان الجنب والمرأۃ والفاسق ھ۱ تلخیصا)- یعنی جنب ؛عورت ؛فاسق کی اذان مکروہ ہے
(ھٰکذا؛ صرحوا بکراھة اذان الفاسق من غیر تقیید نکونه عالما او غیره اھ)یعنی عالم غیر عالم کی قید کے بغیر اذان فاسق کے مکروہ ہونے کی فقہائے کرام نے تصریح فرمائی ہے پھر چونکہ اذان شعائر اسلام ہے اورفاسق کی اذان سے بھی اقامت شعار کا مقصد حاصل ہے اسلئے بعض فقہائے کرام نے فرمایاکہ فاسق کی اذان صحیح ہے مگر اذان کا مقصود اصل چونکہ دخول وقت کا اعلان ہےاور فاسق کی خبر دیانات میں نہیں اسلئے بعض فقہائے کرام نےفرمایا کہ فاسق کی اذان صحیح نہیں؛ (فتح القدیر جلد اول ص216)
(فھٰکذا درمختار میں ہے جزم المصنف بعدم صحة اذان مجنون ومعتوه وصبی لا یعقل قلت وفاسق لعدم قبول قوله فی الدیانات ھ ۱)یعنی تنویر الابصار کے مصنف نے مجنون؛ معتوه اور ناسمجھ بچے کی اذان کے صحیح نہ ہونے پر جزم کیاہے تو میں کہتا ہوں کہ فاسق کی اذان بھی صحیح نہیں اسلئے کہ اس کا قول دیانات میں قابل قبول نہیں
(بحرالرائق جلد اول ص 264 میں ہے)
(اذان الفاسق والمرأۃ والجنب صحیح ھ۱)یعنی فاسق؛ عورت اور جنب کی اذان صحیح ہے مگر پھر اس صفحہ پر چند سطر بعد فرمایا کہ چونکہ فاسق کا قول اور اسکی خبر امور دینیہ میں قابل قبول نہیں اسلئے مناسب ہیکہ فاسق کی اذان صحیح نہ ہوں 
چناچہ بحرالرائق کےاصل الفاظ یہ ہیں
(ینبغی ان لا یصح اذان الفاسق بالنسبة الی قبول خبره والاعتماد علیه لما قد مناه انه لا یقبل قوله فی الامور دینیة ھ۱)(اورعلامہ ابن عابدین شامی رحمتہ اللہ علیہ نے منحة الخالق حاشیہ بحرالرائق میں تحریر فرمایا)(قوله ینبغی ان لایصح اذان الفاسق الخ کذا فی النھر ایضا وظاہره انه یعادو قدصرح فی معراج الداریة عن المجتبی انه یکرہ ولا یعاد وکذا نقله بعض الافاضل عن الفتاوی ھندیة عن الذخیرہ لکن فی القھستانی اعلم ان اعادۃ اذان الجنب والمرأۃ والمجنون والسکران والصبی والفاجر والراکب والقاعد والماشی والمنحرف عن القبلة واجبة لانه غیرمعتدبه وقیل مستحبة فانه معتدبة الا انه ناقص وھو الاصح کما فی التمرتاشی ھ۱)(فقد صرح باعادۃ اذان الفاجر ای الفاسق لکن فی کون اذانه معتدبه نظر لما ذکرالشارح من عدم قبول قوله فحینئذ العلم بدخول الاوقات ومثله المجنون والسکران والصبی فالمناسب ان لا یعتد باذانھم اصلا ھ۱)یعنی صاحب بحرالرائق کاقول مناسب یہ ہیکہ فاسق کی اذان صحیح نہ ہو توایساہی نہر میں بھی ہےاوراسکا ظاہر مطلب یہ ہیکہ فاسق کی اذان لوٹائی جائے،
اور(معراج الداریه) میں مجتبی سے تصریح ہے کہ مکروہ ہے مگر لوٹائی نہ جائے اس طرح بعض افاضل نے فتاوی ھندیہ یعنی عالمگیری سے نقل کیا ہے جس میں ذخیرہ سے ہے لیکن قہستانی میں ہے کہ ؛ جنب ؛عورت ؛مجنون ؛نشہ والا ؛بچہ ؛فاسق ؛سوار اور بیٹھ کر اذان پڑھنے والا ؛چلتے ہوئے اور قبلہ سے انحراف کے ساتھ اذان کہنے والا ان سب کی اذان کا اعادہ واجب ہے اور بعض لوگوں نے فرمایا کہ مستحب ہے اسلئے کہ اذان ہوجاتی ہے مگر ناقص ہوتی ہے اور یہی صحیح ہے- جیساکہ (تمرتاشی)میں ہے تو ہم یہ کہتے ہیں جبکہ فاجر یعنی فاسق کی اذان کے اعادہ کی تصریح ہے تو اسکی اذان کو مان لینا یہ محل نظرہے اس سبب سے کہ جسکو شارح نے ذکر کیا یعنی اسکے قول کا قابل قبول نہ ہونا لہذا اس کی اذان سے دخول اوقات کے علم کا فائدہ نہیں حاصل ہوگا اور اسکے مثل مجنون ؛نشہ والا اور بچہ ہے تو مناسب یہ ہیکہ ان میں سےکسی کی اذان کو ہرگز نہ ماناجائے انتہی،
(ردالمحتار جلد اول ص 263میں تحریرفرمایا)(حاصله انه یصح اذان الفاسق وان لم یحصل به الاعلام ھ۱،) یعنی اختلاف کا خلاصہ یہ ہے کہ فاسق کی اذان صحیح ہوجاتی ہےاگرچہ اس سےاعلام نہیں حاصل ہ

وتا-لہذا صحیح ہوجانے کے سبب اسکی اذان کا اعادہ واجب نہیں اورچونکہ اس سےاعلام حاصل نہیں ہوتا(اورپھرحدیث شریف میں ہے)(یؤذن لکم خیارکم)اسلئے فاسق کی اذان کا اعادہ مستحب ہے
(فتح القدیر جلد اول ص220)(بحرالرائق جلد اول ص264میں ہے)
(صرح بکراھة اذان الفاسق ولایعاد فالاعادۃ فیه لیقع علی وجه السنة ھ۱)یعنی اذان فاسق کے مکروہ ہونےکی تصریح ہے اور اعادہ واجب نہیں مگر اسکا اعادہ کرنا چاہئے تاکہ اذان مسنون طریقہ پر ہوجائے-؛ لہذا حضرت مفتی اعظم ھند قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ نےجوتحریرفرمایاہیکہ فاسق کی اذان مکروہ ہےمگرتو ہوجائیگی(عالمگیری میں ہے)(یکرہ اذان الفاسق ولایعاد)اسکامطلب یہ ہے فاسق اذان نہ کہےکہ اسکی اذان مکروہ ہےاور کہدے تو ہوجائیگی اعادہ واجب نہیں(اور انوارالحدیث میں جو درمختار اور بہار شریعت کے حوالے سےہے)کہ فاسق کی اذان کا اعادہ کیا جائےتو اس کامطلب یہ ہیکہ اعادہ مستحب ومندوب ہےاور اعادہ واجب نہ ہومگر مستحب ومندوب ہو اس میں تعارض نہیں-
(فتاوی رضویہ جلد دوم مطبوعہ لائل پور ص 388 میں ہے)کہ فاسق کی اذان اگرچہ شعارکاکام دے مگر اعلام کہ اسکا بڑا کام ہے اس سےحاصل نہیں ہوتا نہ فاسق کی اذان پر وقتِ روزہ ونماز میں اعتماد جائز-لہٰذامندوب ہیکہ اگر فاسق نےاذان دی ہو تواس پرقناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دےانتہی بالفاظ
(اور ردالمحتار جلد اول میں ہے)
المقصودالاصلی من الاذان فی الشرع الاعلام بدخول اوقات الصلاۃ ثم صار من شعائرالاسلام فی کل بلدۂ او ناحیة من البلاد الواسعة فمن حیث الاعلام بدخول الوقت وقبول قوله لابد من الاسلام والعقل والبلوغ والعدالة فاذا اتصف المؤذن  بھذا الصفات یصح اذانه والافلا یصح من حیث الاعتماد علیه وامامن حیث اقامة الشعارالنافیة للاثم عن اھل البلدۃ فیصح اذان الکل سوی الصبی الذی لایعقل فیعاد اذان الکل ندباعلی الاصح ھ۱)
(فتاوی فیض الرسول جلد اول ص 183تا 185)
اب رہی بات کہ مسجد کے اوپر یا مسجد کے نیچے امام کا رہنے کا انتظام ہو اور اس صورت میں امام پر غسل فرض ہو تو کس طرح غسل خانہ تک پہونچے جب کہ راستہ ایک ہی ہےجو مسجد سے ہو کر گزرتی ہے تویاد رکھیں صرف امام ہی نہیں بلکہ کوئی بھی عبادت کہ باد یااعتکاف کی مدت میں یا کسی وجہ سے مسجد میں سوگیا یا ابھی سویا ہی تھاکہ نہانے کی حاجت ہوئ تو آنکھ کھلتے ہی جہاں سویا تھا وہی فورًا تیمم کر نکل آۓ اورغسل کرے اور اس میں تھوڑی بھی تاخیر کرنا حرام ہے
(بہار شریعت حصہ دوم صفحہ 354)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب)

کتبہ؛ محمّد آفتاب عالم رحمتی دہلوی
خطیب و امام جامع مسجد مہاسموند (چھتیس گڑھ)