السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک سوال ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں بسم اللہ پڑھنا کیسا ہے اور مسجد میں باتیں کرنا کیسا ہے اس سوال جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
(السائل.محمد  یونس)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
اگر نمازی مقتدی ہے تو دوسری اور چوتھی رکعت میں خاموش کھڑا رہے گا ـ اگر اکیلا نماز ادا کررہاہے تو دوسری رکعت سمیت ہر رکعات میں سورہ فاتحہ سے پہلے تسمیہ (بسم اللہ) پڑھے گا ـ
نماز میں تعوذ پہلی رکعت میں ہے اور تسمیہ ہر رکعت کے شروع میں مسنون ہے ـ( ردالمختار)  
مسجد میں باتیں کرنے کے بارے میں اعلی حضرت علیہ الرحمتہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ مسجد میں دنیا کی مباح باتیں کرنے کو بیٹھنا نیکویں کو کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو 
فتح القدیر میں ہے (الکلام المباح فیہ مکروہ باکل الحسنات اشباہ میں ہے انہ باکل الحسنات کما تاکل النار الحطب, اھ)
امام ابو عبد اللہ نسفی نے مدارک شریف میں حدیث نقل کی ہیکہ
(الحدیث فی المسجد یاکل الحسنات کما تاکل البھیمستہ الحشیش, اھ)
مسجد میں دنیا کی بات نیکیوں کو اس طرح کھاتی ہے جیسے چوپایہ گھاس کو ـ غمزالعیون میں خزانتہ الفقہ سے ہے
من تکلم فی المساجد بکلام الدنیا احبط اللہ تعالی عنہ عمل اربعین سنتہ -
جومسجد میں دنیا کی بات کرے اللہ تعالی اس کے چالیس برس کے عمل اکارت فرمادے گا ـ
اقول مثلہ لا یقال بالرای رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ـ
سیکون فی آخر الزمان قوم یکون حدیثھم فی مسجد ھم لیس اللہ فیھم حاجتہ ـ)
آخر زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کریں گے ـ
اللہ عزوجل کو ان لوگوں سے کچھ کام نہیں ، رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ ـ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے ـ ("کلام الدنیا اذ کان مباحا صد قا فی المساجد بلا ضرورتہ ورتہ داعیتہ الی ذلک کالمتکف یتکلم فی حاجتہ اللا زمتہ مکروہ کراھتہ تحریمہ ثم ذکر الحدیث وقال فی شرحہ لیس اللہ تعالی فیھم حاجتہ ای لا یرید بھم خیرا وانماھم اھل الخیبتہ والحرمان والا ھانتہ والخسران اھ)
یعنی دنیا کی بات جب کہ فی نفسہ مباح  اور سچی ہو مسجد میں بلا ضرورت کرنی حرام ہے ضرورت ایسی جیسے معتکف اپنے حوائج ضروریہ کےلئے بات کرے پھر حدیث مذکور ذکر کرکے فرمایا . معنی حدیث یہ ہےیں کہ اللہ تعالی ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ نہ کرے گا اور وہ نا مرادومحروم وزیاں کار اور اہانت وذلت کے سزاوار ہیں ـ
اسی میں ہے (" وروی ان مسجد امن المساجد ارتفع الی السماء شاکیہ من اھلہ یتکلمون فیہ بکلام الدنیا فا ستقبلتہ الملئکتہ وقالوا بعشنا یھلا کھم  اھ ـ)
یعنی مروی ہوا کہ ایک مسجد اپنے رب کے حضور شکایت کرنے چلی کہ لوگ مجھ میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ملائکہ اسے آتے ملے اور بولے ہم ان کے ہلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں ، 
اسی میں ہے (" وروی ان الملئکتہ یشکون الی اللہ تعالی من فتن فم الغتابین والفائلین فی المساجد بکلام الدنیا-)
یعنی روایت کیا گیا کہ جولوگ غیبت کرتے ہیں ( سخت حرام اور زنا بھی اشد ہے ) اور جو لوگ مسجد میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ان کے منہ سے وہ گندی بدبو نکلتی ہے جس سے فرشتے اللہ عزوجل کے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان کی شکایت کرتے ہیں ـ 
سبحان اللہ جب مباح وجائز بات بلا ضرورت شرعیہ کرنے کو مسجد میں بیٹھنے پریہ آفتیں ہیں تو حرام وناجائز کام کرنے کا کیا حال ہوگا ـ
(حوالہ: فتاوی رضویہ جلد ششم ص ۴۰۳)
(حوالہ فتاوی برکاتیہ جلد اول ص ۹۰ تا: ۹۱)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ؛ محمد مشاہد رضا قادری رضوی خادم التدریس دارالعلوم شہید اعظم دولھاپور پہاڑی انٹیا تھوک بازار ضلع گونڈہ