السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کے رشتہ دار میں وہابی ہیں تو اس کو سلام کریں یا نہ کریں اگر سلام نہیں کریں گے تو اس کے دل میں تکلیف ہوگی تو اس حالت میں سلام کریں یا نہ کریں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی کرم ہوگا 
 سائل؛ محمد احمد رضا قادری گریڈیہ جھارکھنڈ 

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب 
 سب سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ رشتہ دیوبندیوں وہابیوں میں کرنا جائز نہیں- اور رشتہ اس وقت ہوا جب وہ وہابی نہ تھا بعد میں ہوگیا تو اس کو بائیکاٹ نیز اس کے ساتھ سلام و کلام بند کر دینا چاہیئے اس سے دور رہنا چاہیۓ اور اس کو خود سے دور رکھنا چاہیۓ کہ وہ گستاخ رسول و بدمذہب ہے - حضور امام اہلسنت سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔ بدمذہبوں کے پاس بیٹھنا حرام ہے , ہم سنیوں کو اعراض کرنا چاہیۓ اس لئے کہ ایسے ہی لوگوں کے لئے حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ (ان مرضو افلا تعودوھم و ان ماتو افلا تشھدوھم و ان لقیتموھم فلا تسلموا علیھم ولا تجالسوھم و لا تشاربوھم ولا تواکلوھم ولا تناکحوھم ولا تصلوا علیھم ولا تصلوامعھم"اھ) یعنی اگر بد مذھب بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوں اور وہ مل جائیں تو سلام نہ کرو نہ ان کے ساتھ بیٹھو اور نہ پانی پیو اور نہ کھانا کھاؤ اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرو اور نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھو - 
(کنزالعمال ج/11. ص/540)
 اور دوسری جگہ ہے "ایاکم وایاھم لایضلونکم ولایفتنونکم" صحیح مسلم مقدمہ باب النھی عن الروایہ عن الضعفاء ہیں۔انہیں اپنے سے دور کرو اور ان سے دور رہو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں: امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ شرح الصدور میں نقل فرماتے ہیں ایک شخص روافض کے پاس بیٹھا کرتا تھا جب اس کی نزع کا وقت آیا تو لوگوں نے حسب معمول اسے کلمہ طیب کی تلقین کی ۔کہا نہیں کہا جاتا پوچھا گیا کیوں تو کہا یہ دو شخص کھڑے ہیں میں ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا جو ابوبکر عمر رضی اللہ تعالی عنہ۔کو برا کہتے تھے اب یہ چاہتے ہیں کہ کلمہ پڑھ کر اٹھے ہرگز نہ پڑھنے دیں گے ۔ 
 (ملفوظات حصہ دوم صفحہ 277)
 امام اہلسنت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اگر وہابی یا رافضی یا دیوبندی یا نیچری یا قادیانی یا صوفی بننے والا غرض کوئی کلمہ گو مرتد چھینک کر لاکھ بار الحمد للہ کہے اسے یرحمک اللہ کہنا جائز نہیں۔ 
(ملفوظات اعلیحضرت حصہ دوم322)
 فتاویٰ شامی میں ہے (قدعلمت ان الصحبح خلافه فالدعاء كفرلعدم جوازه عقلا شرعاولتكذيبه النصوص العطعبة۔ 
(فتاویٰ شارح بخاری جلد سوم)
 حضور اعلی حضرت ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں شرك کی محبت نے اس کفر دوست کو ایسا اندھا بہرا کردیا کہ خود اپنے کفر کا اقرار کر بیٹھا مطلب تو یہ ہے کہ کسی طرح تمام مسلمان معاذ ﷲ مشرك ٹھہریں اگرچہ برائے شگون کو اپنا ہی چہرہ ہموار سہی۔ " کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ ") ﷲ تعالٰی یوں ہی مہر کردیتا ہے متکبر سرکش کے سارے دل پر زید کو چاہیۓ کہ ان عقائد باطلہ کو سلام نہ کرے اور نہ ہی ان کے سلام کا جواب دے اس لئے کہ ان عقائد باطلہ کو سلام کرنا جاٸز نہیں کیونکہ حدیث مبارکہ میں ان سے دور رہنے اور انہیں اپنے قریب نہ آنے دینے اور ان بدمذہبوں سے سلام ، تعظیم وتکریم پر ممانعت آئی ہے 
 جیسا کہ فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ اپنی کتاب انوار الحدیث میں اس حدیث مبارکہ کو نقل فرماتے ہیں کہ " حضرت ابراہیم بن میسرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے بدمذہب کی تعظیم و تکریم کی اس نے اسلام کے ڈھانے پر مدد کی (مشکوة) 
تو مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ صاف ظاہر و باہر ہوگیا کہ زید اپنے ان بدمذہب رشتہ داروں سے دور رہے اور انہیں بھی دور رکھے اور نہ ان سے سلام وکلام کرے اور نہ ہی انکے سلام وکلام کا جواب دے اسی میں اس کے لئے بھلائ ہے اس لئے کہ اس میں انکے لئے تعظم و تکریم اور دعا ہے - جو ان کے لئے شرعاً جائز نہیں 
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
کتبہ؛ محمد امتیاز قمر 
مدن گنڈی برنی بلیا خطیب وامام رضا نگر گینروبینگا باد گریڈیہ جھارکھنڈ انڈیا 
منجانب؛ محفل غلامان مصطفیٰﷺگروپ