السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اسلام میں ہر تہوار مسلمانوں کے لیے ایک بار ہوتا ہے لیکن قربانی تین روز کیوں مناتے ہیں؛ جواب عنایت فرمائیں 
 سائل....محمد شاکر رضا 

 وعلیکم السلام ورحمةاللّٰہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک والوہاب 
 دین محمدیﷺ میں قربانی کرنا تین دن مشروع ہے اور شریعت نے جس عبادات کو جس انداز میں مشروع کیا ھے اسکو اسی طریقے سے ادا کرنا مطلوب ہے۔ لہذا شرعی حکم میں کیوں کا سوال کرنا صحیح نہیں۔ پس ! جس پر جمہور کا اجماع ہیکہ قربانی تین دِن ہے اور یہی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ تو اسی کو اپنے لاحئہ عمل میں لائیں۔ قربانی تین دن متعین ہونے کی نسبت کنز العمال میں روایت موجود ہے: ”عن علی انہ کا ن یقول ایام النحرثلاثۃ وافضلھن اولھن۔ ابن ابی الدنیا”۔ ترجمہ: حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ فرمایا کرتے تھے:قربانی کے دن تین ہیں اور ان میں افضل پہلا دن ہے۔ (کنزالعمال،کتاب الحج،باب فی واجبات الحج ومندوباتہ، حدیث نمبر١٢٦٧٦) 
مذکورہ حدیث پاک کی بنا پر فقہاء احناف نے فرمایا ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں: ١٠، ١١، ١٢ ذی الحجہ، قربانی کاوقت ١٠ ذی الحجہ نماز عیدالاضحی کے بعد سے ١٢ ذی الحجہ کی غروب آفتاب تک ہے۔ 
تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے: (ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ فی وقت مخصوص۔ ۔) (تنویر الابصار مع الدرالمختار،جلد٥ ص٢١٩) 
حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں عید کے دو دن بعد قربانی ہے اور حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی منقول ہے۔ (موَطا امام مالک مترجم اردو ص٥٥٢)
   ”عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِوَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ” (تفسیر ابن ابی حاتم رازی جلد٦ ص٢٦١) ترجمہ: حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں:ایام معلومات چنانچہ ایام معلوم یوم النحر(دسویں ذی الحجہ)اور اس کے بعد دو دن(١١، ١٢ذی الحجہ) ہیں۔ ”عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ” (احکام القرآن امام طحاوی، جلد٢ ص٢٠٥) ترجمہ:حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں: کہ قربانی تین دن ہے۔ ”عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ” ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا:قربانی(دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے 
(سنن کبریٰ بیہقی جلد٩ ص٢٩٧ باب من قال الاضحی یوم النحر) ھدایہ میں ہے: ”وھی جائزۃ فی ثلثلۃ أیام , یوم النحر, ویومان بعدہ , لنا :ماروی عن عمرو علی وابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم, قالوا: ایام النحر ثلثۃ افضلھا اولھا وقد قالوہ سماعاً, لأن الرائ لایھتدی الیٰ المقادیر. آھ ملتقطا” (جلد٤ صفحہ نمبر٤٣٠ , مجلس برکات) 
قربانی تین دن جائز ہے ایک تو یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ اور دو دن اس کے بعد کیوں کہ حضرت عمرو علی وابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے کہ ان حضرات نے فرمایا کے قربانی کے دن تین ہیں سب سے افضل پہلا دن یعنی دسویں ذی الحجہ ھے ۔اور یقیناً ان حضرات نے یہ بات رسول اللّٰہﷺ سے سُنکر ہی ارشاد فرمائ ہے کیونکہ قیاس و راۓ سے مقدار کا علم نہیں ہوتا - 
(آپ کے مسائل "صفحہ نمبر١٧٤)
 واللّٰہ ورسولہ اعلم بالصواب 

  کتبہ؛ احقر العباد محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب وامام جامع مسجد مہاسمند (چھتیس گڑھ) 

  منجانب؛ محفل غلامان مصطفےٰﷺ گروپ