السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ روزے داروں کے ساتھ غیر روزہ دار کا مسجد میں افطار کرنا کیسا ہے دلائل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
 سائل محمد اطہر رضا سیونی 

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب 
 چھوٹے بچوں کے علاوہ غیر روزے دار کو چاہیے کہ روزے داروں کے ساتھ افطاری میں شریک نہ ہوں لیکن پھر بھی بیٹھتے ہیں تو کوئ خرابی نہیں۔ مگر غیر روزے داروں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ افطاری مطلق روزے داروں کے لئے ہے نہ کہ غیر روزے داروں کے لیے۔ ہاں علم ہونے کے بعد بھی اگر غیر روزے دار روزے دار بن کر مسجد میں روزے داروں کے ساتھ افطاری کریں تو ضرور حرام ہوگا مگر وہاں کے متولیوں پر کوئ الزام نہیں۔ سیدی سرکار اعلیٰحضرت رضی اللہ عنہ فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ، افطاری میں غیر روزہ دار اگر روزہ داربن کر شریك ہوتے ہیں متولیوں پر الزام نہیں۔ بہتیرے غنی فقیر بن کر بھیك مانگتے اور زکوٰۃ لیتے ہیں دینے والے کی زکوٰہ ادا ہوجائے گی کہ ظاہر پر حکم ہے اور لینے والے کو حرام قطعی ہے یونہی یہاں ان غیر روزہ داروں کو اس کا کھانا حرام ہے۔ وقف کا مال مثل مال یتیم ہے جسے ناحق کھانے پر فرمایا۔ " اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَارًا ؕ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیۡرًا ﴿٪۱۰﴾" اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے۔ ہاں متولی دانستہ غیر روزہ دارکو شریك کریں تو وہ بھی عاصی ومجرم وخائن ومستحق عزل ہیں۔رہا اکثر یاکل مرفہ الحال ہونا اس میں کوئی حرج نہیں۔افطاری مطلق روزہ دار کے لئے ہے اگرچہ غنی ہو جیسے سقایہ مسجد کاپانی ہر نمازی کے غسل و وضو کو ہے اگرچہ بادشاہ ہو۔انتظامات متولیوں کے ہاتھ سے ہوں گے جبکہ وہ صالح ہوں۔متولی معزول معزول ہے۔
 (فتاویٰ رضویہ، جلد،۱۶, ص، ۴۸۹) [روح المدینہ اکیڈمی] 
واللہ تعالیٰ ورسولہﷺاعلم بالصواب

  کتبہ؛ مولانا محمّد رضا بركاتی(نيپـال)