بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رب العزت کے مقدس کلام "قرآن مجید" نے ہمیں کیا درس دیا ہے، ہم کِسےلیں اور کِسےچھوڑیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے
:وَمَااٰتَاکُمُ الرَّسُو٘لُ فَخُذُو٘هُ ،وَمَانَھٰکُم٘ عَن٘ہُ فَان٘تَھُو٘ا وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِی٘دُال٘عِقَابِ۔
ترجمہ کنزالایمان:اور جوکچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
(پارہ ٢٨، سورۃ الحشر آیت نمبر ٧)
یہ بظاہرکتاب اللہ کا ایک مختصر حصہ ہے لیکن خداوند قدوس نے اسی مختصر حصے میں ہمارے قانون زندگی کو سمو دیاہے اور اتنے ہی حصے میں ہمارے دستور حیات کو سمیٹ دیا ہے۔ اگر مسلمانوں کو یہ قانون یادرہ جائے تو اس کاقدم کبھی ڈکمگانہیں سکتا، نہ ہی وہ پِھسلےگا اور نہ وہ گرے گا۔ مثلاً اگر وہ کسی چیز کو کرنا چاہتاہے اور اسے اسی وقت یہ یاد آجاۓ کہ میں اسے کرنے جا رہا ہوں کہیں رسول خداﷺ نے اسے حرام یا منع تو نہیں فرمایا ہے اگر منع یا حرام ہے تو ایک سچا مسلمان، اپنے آپ کوعاشق رسول یا غلام رسول کہلانے والا اسے چھوڑ دے گا اور اسے نہیں کرےگا، اورشریعت سے قدم آگے نہیں بڑھائے گا بس یہ قانون اس کے پاؤں کی بیڑی بن جائے گا اب وہ شریعت مطہرہ پر عمل کرتا ہوا نظرآئے گا اسی تناظر میں ہم ماہ محرم الحرام کو لے لیں۔ کہ اس ماہ مبارک میں مسلمان عوام اہلسنت نیکی کے نام پرمحرم الحرام میں کیا کیا خرافات مچارہے ہیں ان لوگوں کے لئےیہ مضمون قابل فکر وعمل ہےکیونکہ ایسے مضامین وکتب کی اشد ضرورت ہے جس میں معاشرے میں موجود اور پھیلےخرافات وواہیات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی طرف رہنمائی کی گئی ہوتاکہ اس پر عمل پیرا ہوکر مسلمانان اہلسنت دارین کی سرخروئی حاصل کر سکیں ۔
"ماہ محرم الحرام" میں مسلمانان اہلسنت
خصوصاً ان چیزوں کی طرف اپنی توجہات مبذول کریں اور
عمل کرنے کی کوشش کریں۔
جن کا کرنا شریعت مطہرہ کو محبوب وپسندیدہ ہے۔جس کاذکر
حدیث پاک میں اس طرح ہے: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے روایت کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوم عاشورہ کا روزہ سال گزشتہ کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر سال میں ایک دن کا روزہ فرض فرمایا اور وہ دن یوم عاشورہ ہے۔ اور وہ محرم کا دسواں دن ہے۔پس اس دن روزہ رکھو اور اپنے اہل وعیال کے رزق میں وسعت وفراخی پیدا کرو،اس لئے کہ جس شخص نے اس دن اپنے مال میں سے اپنے اہل وعیال پر وسعت وفراخی سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئےپورے سال کشادگی اور فراخئی رزق فرمائےگاتواس دن روزہ رکھو کیونکہ یہی وہ دن ہےجس میں اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی اور وہ منتخب ومخلص دوست ہوئے اور اسی دن اللہ تعالی نے حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مقام میں اٹھا لیا اور اسی دن اللہ تعالی نےحضرت نوح علیہ السلام کو کشتی سے نکالا اور اسی طرح اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچایا اور اسی دن اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل فرمائی اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانہ سے رہا کیا اور اسی دن اللہ تعالی نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس فرما دی اور اللہ تعالی نےحضرت ایوب علیہ السلام کی تنگی و بدحالی دور فرما دی اور اسی دن اللہ تعالی نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر پھاڑ ڈالا اوراسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی لغزش معاف فرمایا اوراسی دن اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت عطا فرمائی اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے اور وہ سب سے پہلا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے دنیا کو پیدا فرمایا اور وہ سب سے پہلا دن ہے جس میں آسمان سے بارش کا نزول ہوا اور سب سے پہلی رحمت زمین کی طرف یوم عاشورہ میں نازل ہوئی پس جس شخص نے یوم عاشورہ میں روزہ رکھا تو اس نے ہزار سال روزہ رکھا اور وہ انبیاءکاروزہ ہے اور جو شخص شب عاشورہ میں عبادت کے ساتھ بیدار رہا توگویا اس نے ساتوں آسمان والوں کی عبادت کے مثل عبادت کی اور جس شخص نے یومِ عاشورہ میں چار رکعت نفل نماز ادا کی اس طور سے کہ ہررکعت میں سورہ فاتحہ ایک مرتبہ اور سورہ اخلاص پچاس مرتبہ تواللہ تعالیٰ اس کے پچاس سال کے گناہ معاف فرمائے گا اور جو شخص یومِ عاشورہ میں پانی کا ایک گھونٹ پلائے تو اللہ تعالی اس شخص کو سب سے بڑی پیاس کے دن ایسا جام پلائے گا کہ اس کے بعد پھر وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور وہ بندہ بارگاہ مولیٰ میں ایسا ہوگا کہ گویا اس نے پل بھر کے لئے بھی نافرمانی نہیں کی اور جس شخص نے یوم عاشورہ میں کوئی چیز صدقہ کیا تووہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے کبھی بھی کسی سائل کو واپس نہیں لوٹایا اور جس شخص نے عاشورہ کے دن غسل کیا اور اچھی طرح پاکی حاصل کی تو اسے پورے سال مرض الموت کے سوا کوئی بیماری نہ ہوگی اور جس شخص نے اس دن کسی یتیم کے سر پر دست شفقت پھیرا اور اس کے ساتھ بھلائی کیا تو گویا اس نے بنی آدم کے تمام یتیموں کے ساتھ بھلائی کیا اور جس نے یوم عاشورہ میں کسی مریض کی عیادت کی تو گویا اس نے تمام اولاد آدم کے مریضوں کی عیادت کی اوریوم عاشورہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عرش اعظم اور لوح وقلم کوپیدا فرمایااور اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو اٹھا لیا۔ یوم عاشورہ ہی وہ دن ہے جس میں قیامت قائم ہوگی۔
اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالی کے قول
"مَو٘عِدُکُم یَو٘مُ الزِّی٘نَۃِ"
میں یوم الزینہ سے مراد یوم عاشورہ ہے۔
تو خوشخبری اور خوش نصیبی ہے اس شخص کے لیے جس نے اس مبارک دن میں نیک اعمال کیے اور آخرت کے لئے اس دن میں نیکیوں اور بھلائیوں کی بہت ہی نفع بخش تجارت کئے اور اپنے گناہ و خطا سے توبہ کیا اور متوجہ ہوا اپنے مولا کی طرف نیک و صالح ہو کر اور اپنے غیر سے نصیحت قبول کرنے والا ہوا اور اپنے ناصح کی نصیحت کو قبول کیا تکبر و غرور کو چھوڑ کر اور اختیار کیا تقوی کی راہ جو واضح راستہ ہے۔
(حوالہ:کتابُ عاشوراءَ، عربی۔ مصنف حضرت الشیخ محمد ابن ابی بکر بن محمد بافضل الیمنی،ملک یمن کے نہایت مشہور بزرگ ۔ترجمہ اردو،بنام:فضا ئل یوم عاشورہ ص١٩تا٢١، مترجم مولانا محمد محمود سعدی رضوی، دربھنگوی۔موجودہ پِرنسپل دارالعلوم غریب نواز،الٰہ آباد)
جو اعمال یومِ عاشورہ میں مستحب ہیں ان میں سے غسل کرنابھی ہے کہ اللہ تعالی اس رات میں چاہ زمزم کو تمام پانیوں کی طرف کھول دیتا ہے پس جس شخص نے اس رات میں غسل کیا وہ پورے سال بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔ (ایضًا ص٢٣) یوں ہی یومِ عاشورہ(یعنی دسویں محرم)کے دن مختلف اناج مثلاًچنا، دال،گیہوں،چاول وغیرہ ڈال کر کھچڑاپکاناچاہیے۔ اور الگ الگ ریاستوں میں مختلف اندازوں میں پکاتےبھی ہیں۔
کھچڑامیں"مختلف اناج کیوں؟ اس کی ابتداء کب سے اور کیسے ہوئی۔
کتاب عاشوراء، عربی متن، کےمصنف حضرت الشیخ محمد ابن ابی بکر بن محمد بافضل الیمنی ملک یمن کے نہایت مشہور بزرگ (رحمۃ اللہ علیہ)
یوم عاشورہ کی فضیلت اور
قدرومنزلت بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں: کہ یوم عاشورہ(یعنی عاشورہ کے دن) جس میں اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو نجات دیا اور کشتی سے نکالا ۔ اور وہ یوں ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھ والے جب کشتی سے نزول کیے تو لوگوں نے پیغمبر کی بارگاہ میں بھوک کی شکایت کی اور ان کے توشے ختم ہو چکے تھے تو آپ نے ان لوگوں کو حکم فرمایا کہ لے آؤ جو کچھ بھی زادِ راہ بچا ہوا ہے۔ پس کوئی ایک مٹھی گیہوں لایا توکوئی ایک مشت دال توکوئی ایک لپ چنا۔ یہاں تک کہ سات اقسام کے دانے جمع ہوگئے اور یہ عاشورہ کا دن تھا تو نوح علیہ السلام نے نام پکارا یعنی بسم اللہ شریف پڑھا اور اس دانے کو پکادیاان کے لیے تو سب نے کھایا اور شکم سیر ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کی برکتوں کے طفیل۔
چنانچہ قول باری تعالیٰ ہے
(یَانُوحُ اھ٘بِط٘ بِسَلَامٍ مِّنَّاوَبَرَکٰتٍ عَلَی٘کَ وَعَلٰی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ
پارہ نمبر ١٢ سورۃ ھودآیت نمبر ٤٨)اے نوح (کشتی سے) اترئے اورامن و سلامتی کے ساتھ ہماری طرف سے اور برکتوں کے ساتھ جوآپ پر ہیں اور ان پر جو آپ کے ہمراہ ہیں۔ اور یہ سب سے پہلا کھانا تھا جو طوفان نوح کے بعد سطح زمین پر پکا۔
پس لوگوں نے یہ کھانایوم عاشورہ میں بنانا شروع کر دیا اور اس میں بہت بڑا اجروثواب ہےاس شخص کے لئے جواس قسم کا کھانا پکوائے اور فقراء و مساکین کو کھلائے۔
(فضا ئل یوم عاشورہ ص٣٤ ، مترجم سابق)
اللہ پاک ہمیں خلوص کے ساتھ ایسےکھانے پکواکر دسویں محرم الحرام کے دن غرباء اور مساکین کو کھلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور خوب نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اورجن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جائیں جن کا کرنا شریعت مطہرہ کوناپسنداورغیرمحمودہےجن میں سے کچھ یہ ہیں۔مثلاً:
نوحہ خوانی، جزع وفزع،مرثیہ خوانی، مصنوعی کربلا بنانا، وہاں جانا، سوگ منانا، ماہ محرم میں شادی بیاہ کو منحوس سمجھنا، عَلم اٹھانا، حرام کاموں میں ملوث ہونا، دوسروں کو ملوث کرنا،پَرِیاں اوربراق بنانا، بیہودہ طُمطَراق، کوچہ بکوچہ،ودشت بدشت، اشاعت غم کے لئےان کا گشت کرنا، اور تعزیہ کے اردگرد سینہ زنی، ماتم کرنا، یوں ہی اصل تعزیہ سے کچھ علاقہ نہ نسبت پھر بھی ہرسال تعزیہ داری میں نئی تراش، خراش،صدہاخرافات اور توڑتاڑکرکےدفن کرنا،اضاعت مال کے جرم میں مبتلا ہونا،حاجت روا جاننا، تماشےباجے، تاشےمَردوں عورتوں کامیل ملاپ، اور طرح طرح کے بیہودہ کھیل ان سب پر طُرہ یہ کہ نفس تعزیہ میں روضہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی نقل ملحوظ نہ رکھ کر وہاں مرادیں اور منتیں ماننا، وغیرہ سینکڑوں واہیات، بیہودہ رسوم، جاہلانہ وفاسقانہ مِیلوں کازمانہ بنا دیناجس سے طرح طرح کے کھیلوں کی دھوم بازاری،عورتوں کا ہر طرف ہجومِ شہوانی اور خیرات کو بھی بطور خیرات نہ رکھنا، ریاوتفاخرعَلانیہ کرنا، سیدھے طریقے سے محتاجوں کونہ دینا بلکہ چَھتوں پر بیٹھ کر پھینکنا، روٹیاں زمین پر گرانا، رزق کی بے ادبی کرنا،بےشمار امور شَنیعہ وبدعات کاوجود میں آنا
اور آئندہ اپنی اولاد کےلئے بدعات کے راستے ہموار کرنا۔ یہ وہ خرافات ہیں جن سے بچنا لازم و ضروری ہے
۔ اور
حدیث شریف میں ہے
:اتقُوامواضعَ التُّھَم
(تہمت کی جگہ سے بچو)۔ اور
"مَنْ کَانَ یُؤمِنُ باللهِ والیومِ الآخر فلایقِفَنَّ مَوَاقِفَ التُّھَم٘۔
ترجمہ:جو اللہ اوقیامت کے دن پرایمان رکھتاہے وہ تہمت کی جگہ کھڑا نہ ہو۔
(رسالہ تعزیہ داری ص٥، رسائل رضویہ ج١٠)
لہذا اب ہمیں جیتے جی شریعت وسنت کی پابندی کرنی ہے اور ناچ،گانے، ڈھول،تماشے، اورلہوولعب وغیرہ سے بچتے ہوئے،تہمت کی جگہ سے خود بھی بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ
بس اخیر میں دعا ہے
اللہ پاک اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ہمیں خلوص کے ساتھ خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارےعلم میں،عمل میں،رزق میں،زندگی میں بےپناہ برکتیں عطا فرمائے اور دارین کی خوشیاں نصیب فرمائے
آمین بجاہ اشرف الانبیاء والمرسلینﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: (پیر طریقت مولانا قاری)
ابوضیاءغلام رسول سعدی،آسوی،قادری، چشتی، اشرفی رضوی، برکاتی۔
بانی:شیخ شیر محمد اکیڈمی۔ بوہر، پوسٹ تیلتا،ضلع کٹیہار بہار۔8618303831
(خطیب وامام مسجد علی، بلگام کرناٹک انڈیا)
مورخہ ٨محرم ١٤٤٤ھ بمطابق ٧/اگست ٢٠٢٢ءبروزاتوار
ہمیں فالو کریں