السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں شیئر مارکیٹ میں پیسہ لگاتے ہیں کیا شیئر مارکیٹ میں پیسہ لگانا جائز ہے اور اگر جائز ہے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا؟ 
سائل؛ محمد امجد علی رضوی شانتی نگر بھیونڈی مہاراشٹرا

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب اللھم ہدایۃ الحق والصواب 
 صورت مسئولہ میں شیئر بازار میں پیسہ لگانا ناجائز و گناہ ہے جیسا کہ سراج الفقہا کی دینی مجالس میں کہ شیئر بازار کے بارے میں اجمالی حکم یہ ہے کہ شیئر بازار میں حصہ لینا اور اس میں روپے جمع کرنا ناجائز گناہ ہے اس میں کچھ صورتیں جائز ہوتی ہیں اور وہ “ایکویٹی شیئرز ہیں” جنھیں اردو زبان میں مساواتی حصص کہا جاتا ہے مگر ان کے ساتھ ناجائز وسودی کاروبار یعنی پریفرینس شیئرز یا ترجیحی حصص کو اس طرح لازم کردیا گیا ہے کہ پریفرینس شیئرز کا سود ادا کئے بغیر ایکویٹی شیئرز کا نفع تقسیم ہی نہیں ہوتا اور سب کو شیئر کی سودکاری میں لازماً ملوث ہونا پڑتا ہے اس لئے شیئر بازار میں حصہ لینا ناجائز گناہ ہے 
لہٰذا، شیئر بازار سے مسلمان بچیں یہ ہندوستان میں شیئر بازار کا قانون ہے اور جس ملک اس کے یہ قوانین جاری ہو وہاں بھی یہی حکم ہے 
(سراج الفقہا کی دینی مجالس کتاب البیوع صفحہ ۱۱۱)
اور فتایٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ شیئر بازار کا کاروبار کرنا جائز نہیں کہ اس میں اپنے حصہ کا روپیہ دوسرے کے ہاتھ خریدا بیچا جاتا ہےاور یہ دونوں باتیں حرام ہیں اور فتاوٰی رضویہ شریف میں ہےاپنے روپے کا حصہ دوسرے کے ہاتھ خریدنا بیچنا حرام ہے 
(جلد 8 صفحہ 371 کتاب الشرکة)
مزید تفصیل تحقیق اور مکمل تشفی کیلئے محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب قبلہ رضوی کی کتاب »شیئر بازار کے مسائل« کا مطالعہ کریں 
(فتاوٰی مرکز تربیت افتاء جلد 2 صفحہ 239)
 واللہ اعلم باالصواب 
کتبہ؛ محمدعارف رضوی قادری 
انٹیاتھوک بازار (گونڈہ) الھند